میں چھوٹا ہوتا تھا تو دیکھتا تھا کہ ایک آدمی ریکٹ (چھکا) ہاتھ میں لئے سفید پینٹ‘ سفید جو گر پہنے ہوئے بہترین شرٹ پہنی ہوئی اور ہاتھ میں ریکٹ لہراتے ہوئے جاتا تھا۔ اس شخص نے جان بنانے کے لئے جتنی محنت کی ہے مجھے یاد نہیں کہ کسی نے کی ہو۔ اس نے اپنے جسم پر کبھی خراش نہیں آنے دی تھی۔ ایک میجر صاحب کہنے لگے میں اپنے سارے گھر کی سبزی پانچ یا تین روپے کی لینے گیا اوروہ ریکٹ والا 16 روپے کا ایک سیب لے رہا تھا ۔
کہنے لگے میں حیران ہوا کہ میں تو سارے گھر کی سبزی آٹھ دس بندوں کی دو تین روپے کی لے کر جا رہا ہوں اور یہ اتنے روپے کا سیب لے رہا ہے (کیونکہ ساری پیٹیوں میں سے سب سے اچھا تلاش کرتا تھا) اگر یہ جان بنانا اعمال اور عبادت کیلئے ہو تو اس میں کوئی حرج بھی نہیں ہے بلکہ ایک بزرگ تو یہاں تک فرماتے ہیں یاد رکھنا زندگی اللہ کی امانت ہے‘ جان اللہ کی امانت ہے اگر اس کی حفاظت نہ کی تو قیامت کے دن اس کی پوچھ ہو گی۔ اس لیے اس کی حفاظت کریں کہ اللہ جل شانہ کے ہاں تندرست آ دمی زیادہ پسندیدہ ہے اس لئے کہ وہ ہشاش بشاش ہو کر اللہ کی بندگی اور عبادت کرے گا اگر یہ نےت ہے اور اس نےت کے لئے ہلکی پھلکی کوشش بھی ہو رہی ہے لیکن ایک ہے اس کو ایک مقصد ہی بنالینا۔ ایک بندہ ٹرین میں بیٹھا ہوا تھا پیاس لگی اور اسٹیشن پر پانی بھرنے کے لئے گیا تو گاڑی چل پڑی اب سفر مقصد اور پانی ضرورت ہے اب اس نے کیا کیا مقصد کو قربان نہیں کیا بلکہ ضرورت کو قربان کردیا۔
اب جب ضرورت کو قربان کیا تو مقصد فوت نہیں ہوا۔ یاد رکھیے گا! جب زیادہ سفر ہو‘ لمبی منزل ہو تو بعض بہت سی ضروریات قربان ہوجاتی ہیں۔ ایک اور چھوٹی سی بات کہہ رہا ہوں اس کو بھی یاد رکھیے گا جب پیسے تھوڑے ہوں تو پھر اشد ضرورت کی چیزیں لی جاتی ہیں باقی چھوڑ دی جاتی ہیں اور جب زندگی تھوڑی ہو تو پھر اشد ضروریات کی چیزیں لی جاتی ہیں باقی چھوڑ دی جاتی ہیں۔
نامکمل خواہشات پر جو ملے گا
اس لئے کہتے ہیں کہ تمناﺅں کو دل میں لئے‘ حسرتوں کو لیے جب بندہ رب کے پاس جائے گا پھراللہ اس کو جب ان تمناﺅں اور حسرتوں کو چھوڑنے پہ جو عطا فرمائیں گے‘ یہ خواہشں کرے گا (حدیث کا مفہوم عرض کررہا ہوں) اے کاش! دنیا میں کوئی میری دعا قبول ہی نہ ہوئی ہوتی اور میں سکھ کا کوئی سانس ہی نہ لےتا کہ آج ان دکھی سانسوں پہ مجھے جو مل رہا ہے اور ان پریشانیوں پہ مجھے جو عطا ہورہا ہے۔
ایک اور حدیث کا مفہوم ہے سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بندہ خواہش کرے گا کہ اے کاش! کہ میرا جسم قینچیوں سے کاٹا جاتا اور میں اس پہ صبر کرتا اور آج اس صبر پہ اللہ جل شانہ نے اتنا عطا کیا ہے۔ جان بنانے کی محنت ہورہی ایمان بنانے کی محنت نہیں ہورہی۔ مجھے ایک صاحب کہنے لگے کہ میں پیراکی کے لئے جاتا ہوں۔ اس کلب کا 70 ہزار روپے سالانہ ہے اور پھر وہاں گرم پانی میں ہم بیٹھتے ہیں۔ میری فٹنس بنتی ہے اور بڑے بڑے لوگ وہاں آتے ہیں۔ میں سوچنے لگا جان خرچ کی جاتی ہے‘ مال خرچ کیا جاتا ہے‘ وقت خرچ کیا جاتا ہے‘ صحت بنانے کے لئے تو ایمان بنانے کے لئے کتنا وقت ہونا چاہئے؟
ایمان بنانے کے لئے کتنا خرچ ہونا چاہئے؟ اور پھر عجیب دھوکے کی بات بتاﺅں یہ جان ہے ہی عجیب بے وفا اور جو وفا والا ہے وہ ایمان ہے۔ کھوٹی جان ہے‘ بے وفا جان ہے‘ گل جائے گی‘ ختم ہو جائے گی لیکن یاد رکھنا جسم کو موت ہے‘ روح کو موت نہیں۔ جسم کو زوال اور روح لازوال ہے۔ اس لئے کہ اللہ جل شانہ کی ذات لازوال ہے.... جسم کو اس لئے زوال ہے کہ یہ جسم مٹی سے بنا ہے اور روح اللہ جل شانہ کے امر سے بنی ہے۔ جان بنانے کی کتنی محنت ہورہی‘ کتنی کوشش ہورہی‘ اس کو گرمی‘ سردی‘ بارش‘ دھوپ اور طوفان سے‘ سردیوں میں گرم پانی سے‘ گرمیوں میں ٹھنڈے پانی سے‘ اس کو بڑی احتیاط سے بچاتے ہیں۔ ایمان کا کیا بنے گا؟ دیکھو بھائی! جان بنانے کے لئے وقت دیا جاتا ہے اور یاد رکھنا ایمان بنانے کے لئے بھی وقت دیا جائے گا۔ جان کے لئے جب بدپرہیزی ہوگی تو طبیعت خراب ہوگی اسی طرح جب گناہوں کی بدپرہیزی کرے گا تو ایمان خراب ہوگا یہ معاملہ بالکل برابر ہے۔ یاد رکھنا! آدمی کے دن رات جہاں لگیں گے وہ چیز بنے گی۔
کام کبھی ختم نہیں ہوتے
کتنے عجیب لوگ ہیں کہ ساری زندگی دنیا پہ محنت کرتے کرتے آخر کار ایک وقت آ یا دنیا شاید مل گئی اور دنیا شاید حاصل ہو جائے لیکن ایمان نہ ملا اور اسی غفلت میں چلے گئے اور حسرت دنیا ساتھ لے کر اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ قبر والوں سے جا کر پوچھو تو قبر والے کہیں گے ہم وہ حسرت بھرے لوگ ہیں جن کے دنیا کے کام پورے نہیں ہوئے تھے حتیٰ کہ ہمیں قبروں میں پہنچا دیا گیا کوئی ایک قبر والا نہیں کہے گا کہ میری دنیا کا کام پورا ہوا ہے ایمان بنانے کی محنت کریں اور دیکھو ایمان بنتا ہے‘ ایمان بڑھتا ہے‘ ایمان گھٹتا ہے۔ ایمان دولت کی طرح ہے دولت کے ڈاکو چور اور ایمان کا ڈاکو نفس اور شےطان ہیں۔ ایک صاحب میرے پاس آئے اور کہنے لگے جی آپ نے مجھے جو عمل بتایا تھا اس سے شیطانی گڑبڑ کچھ زیادہ ہوگئی ہے۔ میں نے کہا ظاہر ہے آ پ کسی کو چھےڑیں گے تو وہ پریشان تو ہوں گئے کوئی جنوں کی گڑ بڑ تھی لیکن آ پ نے اگر اس عمل پہ استقامت کی تو انشاءاللہ اللہ پاک نجات عطا فرمائیں گے۔ پھر میں نے ایک اور بات عرض کی جس عمل سے آپ کو نفع ہوگا اس عمل اور عامل کے بارے میں یہ شیاطین مایوسی ڈالیں گے اور بد گمانی ڈالیں گے تاکہ یہ عمل کو بھی چھوڑ دے جس کے ذرےعے سے یہ عمل ہورہا اس کو بھی چھوڑدے۔ یہ شیاطین کا ایک خاص گُر ہے۔ (جاری ہے)
Ubqari Magazine Rated 4.5 / 5 based on 982
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں